سینئر صحافی کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ملنے والی سزا ہائی کورٹ میں چیلنج

کراچی: ممبر کراچی پریس کلب و سینئر صحافی نصر اللہ چوہدری نے انسداد دہشت گردی سے ملنے والی سزا کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنچ کردیا ہے۔ یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج منیر بھٹو نے 26دسمبر 2019کو سزا انہیں مبینہ ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے الزام میں 5سال قید، 10ہزار جرمانہ کی سزا سنائی تھی جبکہ عدم ادائیگی پر مزید ایک ماہ سزا کا حکم دیا گیا تھا۔
اپنی درخواست میں نصر اللہ چوہدری نے استدعا کی ہے کہ انسداددہشت گردی عدالت کا فیصلہ بنیادی قانون کے اصول کے برخلاف اور حقائق کے منافی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار7نومبر 2018کو کراچی پریس کلب میں غیر قانونی داخل ہوئے،صحافیوں کو ہراساں اور دھمکایا گیا، اور 8نومبر 2018کی شب انہیں گھر سے غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیا گیا۔ انہوں نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ میری گرفتاری پر کراچی پریس کلب اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے بھرپور احتجاج کیا گیا جبکہ سی ٹی ڈی نے تین روز تک غیر قانونی حراست میں رکھنے کے بعد چھوٹے اور بے بنیاد مقدمے میں نامزد کردیا۔ انہوں نے اپیل مں کہ ہے کہ استغاثہ اپناکیس ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا، ممنوعہ لٹریچر سے متعلق کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے، عدالت نے ان کی غیر قانونی حراست کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے سزا سنائی۔
دوسری جانب اس حوالے سے صحافتی تنظیموں کا ردعمل سامنے آگیا ہے۔ پاکستان یونین آف جرنلسٹس اور کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صحافی کو ممنوعہ لٹریچر رکھنے پر سزا قابل مذمت اور دنیا کی منفرد مثال ہے، نام و نہاد ممنوعہ لٹریچر رکھنے کا الزام جھوٹا اور بے بنیاد ہے، بیان میں کہا گیا ہے کہ کراچی پریس کلب ہمیشہ آزادی اظہار رائے کا نگہبان رہا، حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے آزادی اظہار رائے کو دبانا چاہتی ہے، بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ رکن کراچی پریس کلب کو 8 نومبر 2018 کو غیر قانونی تحویل میں لیا گیا، اور بھرپور احتجاج پر جھوٹا مقدمہ بنا کر پیش کر دیا گیا۔ بیان میں صحافیوں کو ہراساں کرنا، دھمکیوں اور تشدد پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ بیان کے مطابق صحافیوں پر تشدد کے واقعات سندھ کے متعدد اضلاع میں رپورٹ ہوچکے، چیف جسٹس پاکستان، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے نوٹس لینے کی اپیل کی گئی۔
One Comment